AADAAB ARZ HAI!

Aapki Khoobsoorat Bisaraton ki Nazar Arz Kiya Hai!

Tuesday, 10 April 2012

‫فرحت عباس شاہ مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔


‫فرحت عباس شاہ

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔
کسی سنسان سپنے میں چھپی خوائش کی حدت میں
کسی مصروفیت کے موڑ پر
تنہائی کے صحراؤں میں یا پھر
کسی انجان بیماری کی شدت میں
“مجھے تم یاد آتے ہو“

کسی بچھڑے ہوئے کی چشم نم کے نظارے پر

کسی بیتے ہوئے دن کی تھکن کی اوٹ سے
یا پھر تمہارے ذکر میں گزری ہوئی شب کے اشارے پر
کسی بستی کی بارونق سڑک پر
اور کسی دریاَ ، کسی ویران جنگل کے کنارے پر

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔


مری چپ کے کنویں میں

آرزوؤں کے بدن جب تیرتے ہیں
اور کنارے سے کوئی بولے
تو لگتا ہے اجل آواز دیتی ہے

مری بے چینیوں میں جب تمہاری تندخور رنجش کھٹکتی ہے

تمہاری بے دردی سلگتی ہے
یا
پھر جب مری آنکھوں کے صحرا میں
تمہاری یاد کی تصویر جلتی ہے ، جدائی آنکھ ملتی ہے

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔

مجھے تم یاد آتے ہو۔ ۔ ۔ ۔

مقدر کے ستا روں پر

زمانوں کے اشاروں پر
ادا سی کے کناروں پر
کبھی ویران شہروں میں
کبھی سنسان رستوں پر
کبھی حیران آنکھوں میں
کبھی بے جان لمحوں پر

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔


سہانی شام ہو کوئی ۔ ۔۔ ۔

کہیں بدنام ہو کوئی بھلے گلفام کوئی ۔ ۔ ۔۔
کسی کے نام ہو کوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔


کہیں بارش برس جائے ۔ ۔ ۔۔

کہیں صحرا ترس جائے ۔ ۔۔ ۔
کہیں کالی گھٹا اتر جائے ۔ ۔۔ ۔۔
کہیں باد صبا ٹھہرے ۔۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔

مجھے تم یاد آتے ہو ۔

اب کے رت بدلی تو خوشبو کا سفر دیکھے گا کونAhmad Faraz

اب کے رت بدلی تو خوشبو کا سفر دیکھے گا کون
زخم پھولوں کی طرح مہکیں گے پر دیکھے گا کون

دیکھنا سب رقص بسمل میں مگن ہو جائیں گے

جس طرف سے تیر آئے گا ادھر دیکھے گا کون

زخم جتنے بھی تھے سب منسوب قاتل سے ہوئے

تیرے ہاتھوں کے نشاں اے چارہ گر دیکھے گا کون

وہ ہوس ہو یا وفا ہو بات محرومی کی ہے

لوگ تو پھل پھول دیکھیں گے شجر دیکھے گا کون

ہم چراغ شب ہی جب ٹھہرے تو پھر کیا سوچنا

رات تھی کس کا مقدر اور سحر دیکھے گا کون

ہر کوئی اپنی ہوا میں مست پھرتا ہے فراز

شہر نا پرساں میں تیری چشم تر دیکھے گا کون‬

‫آئینہ بن کر کبھی اُن کو بھی حیراں دیکھیے


‫آئینہ بن کر کبھی اُن کو بھی حیراں دیکھیے
اپنے غم کو اُن کی صورت سے نمایاں دیکھیے

اس دیارِ چشم و لب میں دل کی یہ تنہائیاں

اِن بھرے شہروں میں بھی شامِ غریباں دیکھیے

عمر گزری دل کے بُجھنے کا تماشا کر چکے

کس نظر سے بام و در کا یہ چراغاں دیکھیے

دیکھیے اب کے برس کیا گُل کھِلاتی ہے بہار

کتنی شدّت سے مہکتا ہے گلستاں دیکھیے

اے منیر اِس انجمن میں چشمِ لیلیٰ کا خیال

سردیوں کی بارشوں میں برق لرزاں دیکھیے‬